دفاتر میں جنسی ہراساں کرنے کے واقعات کو کیسے ختم کریں
-
0:00 - 0:04میں صرف ایک جائز ترقی چاہتی تھی،
-
0:05 - 0:07اور اس نے مجھ سے کہا ’میزپر چڑھو
-
0:07 - 0:08اور لیٹ جاؤ۔‘
-
0:10 - 0:13میرے دفتر کے تمام مردوں نے
کاغذ کے ایک ٹکڑے پر -
0:13 - 0:15وہ تمام جنسی احسان لکھ دیئے
جو میں ان پرکرسکتی تھی۔ -
0:16 - 0:18میں نے تو ان سے محض کھڑکی
والا آفس مانگا تھا۔ -
0:20 - 0:24میں نے اس سے رائے مانگی،
کمیٹی سے بل کیسے پاس ہوگا: -
0:24 - 0:27اس نے مجھے کہا، اگر میں
اپنے گھٹنوں کہ بل بیٹھ جاؤں تو۔ -
0:30 - 0:32یہ تو صرف چند ہولناک کہانیاں ہیں
-
0:32 - 0:35جو میں نے پچھلے ایک سال
میں خواتین سے سنیں۔ -
0:35 - 0:38جب کہ میں دفاتر میں جنسی ہراساں
کرنے پر تحقیق کررہی تھی۔ -
0:38 - 0:40اور مجھے یہ پتہ چلا کہ
-
0:40 - 0:43یہ تو پوری دنیا میں پھیلے
ایک وبائی مرض کی طرح ہے۔ -
0:44 - 0:48یہ لاکھوں عورتوں کے لئے ایک
ہولناک سچ ہے، -
0:48 - 0:50جب کہ وہ روزمرہ عام حالت میں محض
-
0:50 - 0:51اپنے کام پر جانا چاہتی ہیں۔
-
0:53 - 0:55جنسی ہراساں کرنا کوئی تفریق نہیں رکھتا۔
-
0:56 - 0:57آپ ایک اسکرٹ پہنے ہوں
-
0:58 - 0:59ہسپتال کا یونیفارم،
-
0:59 - 1:01یا کہ فوجی وردی۔
-
1:01 - 1:03آپ جوان ہوں یا بوڑھی،
-
1:03 - 1:04شادی شدہ ہوں یا کنواری۔
-
1:04 - 1:05سیاہ یا سفید فام۔
-
1:05 - 1:09آپ ریپبلکن، یا ڈیکوکریٹ یا آزاد
کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ -
1:11 - 1:13میں نے بہت سی عورتوں سے سنا ہے:
-
1:14 - 1:15پولیس آفیسرز،
-
1:15 - 1:17فوج کے عہدیدار،
-
1:17 - 1:18مالی امور کے معاون،
-
1:18 - 1:22اداکار، انجینیئرز، قانون دان،
-
1:22 - 1:25بینکرز، اکاونٹنٹس، اساتذہ ۔۔۔
-
1:25 - 1:27صحافی۔
-
1:30 - 1:32جنسی ہراساں کرنا۔
اس کا وجود، -
1:32 - 1:34جنسیت ہی کہ لئے نہیں۔
-
1:35 - 1:37یہ طاقت کا معاملہ ہے،
-
1:37 - 1:40اور یہ کہ کسی نے آپ کے ساتھ
کیا کیا -
1:40 - 1:42آپ کی طاقت کو آپ سے
چھین لینے کے لئے۔ -
1:43 - 1:44اورمیں، آج یہاں آپ کو
-
1:45 - 1:50یہ حوصلہ دینے آئی ہوں کہ آپ وہ
طاقت واپس لے سکتی ہیں۔ -
1:51 - 1:54(تالیاں)
-
1:56 - 1:586 جولائی، سن 2016 کو،
-
1:59 - 2:01میں نے خود کو ایک چٹان سے گرا دیا تھا۔
-
2:03 - 2:05وہ لمحہ میری زندگی کا
ہولناک ترین لمحہ تھا: -
2:05 - 2:07ایک اذیت ناک فیصلہ۔
-
2:09 - 2:12میں تنہا ایک گہری کھائی میں گر گئی تھی
-
2:13 - 2:15یہ جانے بغیر کہ نیچے کیا ہوگا۔
-
2:16 - 2:20مگر تب کچھ معجزاتی سا ہونے لگا۔
-
2:20 - 2:22ہزاروں عورتیں میرے پاس آنے لگیں
-
2:22 - 2:25اپنی درد، اذیت اور شرمندگی سے
بھرپور کہانیاں سنانے۔ -
2:26 - 2:28انھوں نے مجھے کہا کہ میں
ان کی آواز بن گئی ہوں -
2:28 - 2:30ان کی کوئی شنوائی نہیں تھی۔
-
2:32 - 2:36اور اچانک، مجھے احساس ہوا
کہ اکیسویں صدی میں بھی، -
2:36 - 2:38ہر عورت کی ایک کہانی ہے۔
-
2:41 - 2:42جیسے کہ جوئیس،
-
2:43 - 2:45ایک فضائی خدمت گار،
-
2:45 - 2:47جس کا افسر، ہر روز کی میٹنگز میں،
-
2:47 - 2:50اسے اپنی پچھلی رات کی دیکھی ہوئی
فحش فلم کی کہانی سناتا اور -
2:50 - 2:52ساتھ ہی عضوتناسل کی تصویریں بناتا جاتا۔
-
2:52 - 2:53اس نے شکایت کی کوشش کی۔
-
2:53 - 2:55اسے پاگل کہہ کر نوکری سے نکال دیا گیا۔
-
2:55 - 2:58جیسے کہ وال اسٹریٹ بینکر، جواین۔
-
2:58 - 3:01اس کے دفتر کے مرد اسے "C" سے
شروع ہونے والے بے ہودہ لفظ سے بلاتے ۔ -
3:01 - 3:02اس نے شکایت کی ۔۔
-
3:02 - 3:04فسادی کا خطاب مل گیا۔
-
3:04 - 3:07وال اسٹریٹ میں مزید کام
کرنے سے قاصر کردیا گیا۔ -
3:07 - 3:10جیسے کہ ایلزبیتھ،
ایک فوج کی افسر۔ -
3:11 - 3:14اس کے مرد ماتحت اس کے منہ پر
ایک ڈالر کا نوٹ لہراتے، -
3:14 - 3:16اور کہتے، ’’ہمارے لئے ناچو‘‘
-
3:16 - 3:18اور جب وہ شکایت لے کر
میجر کی پاس پہنچی، -
3:18 - 3:21تو وہ بولا ’کیا؟ صرف ایک ڈالر؟
-
3:21 - 3:23تم کم از کم پانچ یا دس کے قابل تو ہو!‘
-
3:26 - 3:28پڑھنے کے بعد،
-
3:28 - 3:30سب کو جواب دینا
-
3:30 - 3:35اور ان تمام ای میلز پر رونا۔
-
3:35 - 3:39مجھے ایسا ہوا کہ مجھے بہت کام کرنا ہے۔
-
3:40 - 3:42پیش ہیں چند چونکا دینے والے حقائق:
-
3:42 - 3:44ہمارے حلقوں میں ۔۔ ہر تیسری عورت ۔۔
-
3:45 - 3:47اپنے دفتر میں جنسی ہراساں کی جاچکی ہے۔
-
3:49 - 3:54ان میں سے 71 فیصد واقعات
کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ -
3:55 - 3:56کیوں؟
-
3:57 - 3:58کیوں کہ جب عورت آگے آتی ہے،
-
3:58 - 4:01انھیں جھوٹا اور فسادی کہا جاتا ہے۔
-
4:01 - 4:03اور گری ہوئی اور قابل تذلیل
-
4:03 - 4:04ہتک آمیز اور بکواس
-
4:04 - 4:06اور نوکری سے فارغ۔
-
4:06 - 4:10جنسی ہراساں کرنے کے خلاف رپورٹ کرنے سے
اکثر واقعات میں، روزگار ختم ہوجاتی ہے, -
4:11 - 4:13مجھ تک پہنچنے والی تقریباً
تمام ہی خواتین، -
4:14 - 4:19آج ان کی اکثریت اپنی من چاہی نوکری
سے محروم ہے، -
4:19 - 4:21اور یہ زیادتی کی انتہا ہے۔
-
4:24 - 4:27میں خود ابتدا میں خاموش ہی تھی۔
-
4:28 - 4:32یہ میرے مس امریکہ بننے والے
سال کے آخر میں ہوا تھا، -
4:32 - 4:35جب میں ٹی وی کی ایک بہت بڑی
شخصیت سے ملاقات کررہی تھی -
4:35 - 4:36نیویارک شہر میں۔
-
4:36 - 4:38میں سمجھی تھی کہ وہ سارا دن
میری مدد کررہا ہے -
4:39 - 4:40بہت سی فون کالز کرکے۔
-
4:40 - 4:41ہم ڈنر پر گئے،
-
4:41 - 4:44اور کار کی پچھلی سیٹ پر
وہ اچانک مجھ پر چڑھ دوڑا -
4:44 - 4:46اور اپنی زبان میرے حلق میں پھنسا دی۔
-
4:48 - 4:52میں پگلی تھی، سمجھی ہی نہیں،
’چلو کام میں لگ جانے کا مطلب ۔۔۔ -
4:54 - 4:56وہ میری پینٹ میں بھی گھسنا چاہتا تھا۔
-
4:59 - 5:00اور صرف ایک ہفتہ بعد،
-
5:00 - 5:05جب میں لاس اینجلس میں تھی
ایک بڑے مشتہر سے ملاقات کے لئے -
5:05 - 5:06ویسا ہی دوبارہ ہوا
-
5:06 - 5:07دوبارہ کار میں۔
-
5:07 - 5:10اس نے اپنے ہاتھوں میں میری گردن دبوچ لی۔
-
5:10 - 5:13اس نے اپنی ٹانگوں کے بیچ میں
میرے سر کو بہت سختی سے جھٹکا دیا، -
5:14 - 5:15میں سانس نہیں لے پا رہی تھی۔
-
5:21 - 5:27یہ ایسے موقع ہوتے ہیں جب ہم اپنی
ساری زندگی کی خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں۔ -
5:30 - 5:34یہ وہ واقعات ہیں، یہاں تک کہ
ابھی کچھ دن پہلے تک۔ -
5:34 - 5:36میں تو اسے حملہ بھی ںہیں کہتی۔ تھی۔
-
5:39 - 5:43اسی وجہ سے ہمیں ابھی
بہت کام کرنا ہے۔ -
5:47 - 5:49میرے مس امریکہ بننے والے
سال کے بعد، -
5:49 - 5:52میں بہت سے مشہور لوگوں
سے ملتی جلتی رہی، -
5:53 - 5:55جن میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں۔
-
5:56 - 5:581988 میں جب یہ تصویر لی گئی تھی،
-
5:58 - 6:01کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ
ہم جہاں آج ہیں وہاں ہوں گے -
6:01 - 6:02(قہقہے)
-
6:03 - 6:06میں، دفاتر میں جنسی ہراساں کرنے
کے خلاف جنگ کرتے ہوئے: -
6:07 - 6:10وہ، امریکہ کا صدر
-
6:10 - 6:11اس سب کے باوجود۔
-
6:14 - 6:17اس کے کچھ دن بعد ہی ٹی وی پر
مجھے میرا پہلا پروگرام مل گیا -
6:17 - 6:18رچمنڈ، ورجینیا میں۔
-
6:18 - 6:21چمکدار گلابی جیکٹ میں اس پراعتماد
مسکراہٹ کو دیکھئے۔ -
6:21 - 6:23زیادہ بالوں کی طرف نہیں۔
-
6:23 - 6:24(قہقہے)
-
6:24 - 6:29میں سنہرے بالوں والیوں کی عقلمندی
ثابت کرنے کے لئے بہت محنت کررہی تھی۔ -
6:31 - 6:34پر ستم یہ ہوا کہ جو سب سے پہلی
کہانی میں نے کی -
6:34 - 6:36وہ واشنگٹن میں انیتا ہل کی
عدالتی کاروائی کی تھی۔ -
6:37 - 6:38اس کے کچھ بعد ہی،
-
6:38 - 6:41مجھے بھی دفتر میں جنسی ہراساں کیا گیا۔
-
6:42 - 6:44میں دیہی ورجینیا میں ایک کہانی
پر کام کر رہی تھی، -
6:45 - 6:46اور جب ہم کار میں واپس آئے تو،
-
6:46 - 6:48میرا کیمرہ مین مجھ سے کہنے لگا،
-
6:48 - 6:51سوچتا ہوں کتنا مزہ آیا تھا جب
اس نے میرے پستان چھوئے تھے -
6:51 - 6:53جب وہ مجھے مائکروفون لگا رہا تھا۔
-
6:53 - 6:54اس کے بعد گراوٹ جیسے بڑھتی ہی گئی۔
-
6:55 - 6:57میں خود کو بیرونی دروازے
کی طرف دھکیل رہی تھی ۔۔ -
6:57 - 6:59یہ موبائل فون سے پہلے کی بات ہے۔
-
6:59 - 7:00میں خوف سے جم سی گئی تھی۔
-
7:00 - 7:04میں صرف کسی طرح اس دروازے سے
باہر نکلنا چاہ رہی تھی -
7:04 - 7:07جب کہ کار کسی فلمی انداز میں 50 میل
فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔ -
7:07 - 7:10سوچ رہی تھی کہ ایسا کرنے سے
کتنی چوٹ لگے گی۔ -
7:14 - 7:17جب ہاروے وائنسٹین کی کہانی
دنیا کے سامنے آئی ۔۔ -
7:17 - 7:20جو کہ ہالی وڈ کی ایک جانی مانی
اور انتہائی مضبوط شخصیت کا مالک تھا ۔۔ -
7:20 - 7:22الزامات بے حد خوفناک تھے۔
-
7:23 - 7:25مگر بہت سی خواتین سامنے آگئیں،
-
7:25 - 7:28اس سے مجھے لگا کہ جو میں نے کیا
وہ واقعی اہمیت کا حامل تھا۔ -
7:29 - 7:35(تالیاں)
-
7:36 - 7:38اس کے جوابات بہت بکواس تھے
-
7:39 - 7:41اس نے کہا وہ تو 60 اور 70 کی
دہائی کا انسان ہے۔ -
7:41 - 7:43اور اس وقت تو یہ ایک عام سی بات تھی۔
-
7:43 - 7:45ہاں، اس وقت یہ عام سی بات تھی،
-
7:45 - 7:48اور بدقسمتی سے یہ اب بھی ہے۔
-
7:48 - 7:49کیوں؟
-
7:50 - 7:51ان تمام غلط تصورات کی وجہ سے
-
7:51 - 7:53جو اب بھی جنسی ہراساں کرنےسے
جڑے ہوئے ہیں۔ -
7:55 - 7:58’عورتوں کو کوئی دوسری نوکری
یا کام ڈھونڈ لینا چاہئے۔‘ -
7:58 - 7:59ہاں، صحیح بات ہے۔
-
7:59 - 8:02یہ بات دو نوکریاں کرنے والی
تنہا ماں کو بتائیں -
8:02 - 8:03جو اخراجات کو پورا کرنے
کے لئے جدوجہد کر رہی ہو۔ -
8:03 - 8:05اور جسے جنسی ہراساں
بھی کیا گیا ہو۔ -
8:06 - 8:08’’عورتیں ۔۔
-
8:08 - 8:09ان واقعات کو ہوا دے کر
وجوہات کا سبب خود بنتی ہیں ۔‘‘ -
8:10 - 8:12کپڑوں کی وجہ سے جو ہم پہنتی ہیں
-
8:12 - 8:13اور وہ میک اپ جو ہم کرتی ہیں۔
-
8:14 - 8:17ہاں وہ hoodie جو سیلیکون ویلی میں
Uber کے انجینئیرز پہنتے ہیں -
8:17 - 8:19کافی اشتہا انگیز ہوتی ہیں۔
-
8:21 - 8:22’’یہ سب عورتیں کرتی ہیں۔‘‘
-
8:23 - 8:26ہاں، کیوں کہ یہ بڑا مزیدار اور
تعریف کے قابل ہوتا ہے کہ -
8:26 - 8:28خود کو بے معنی اور تذلیل شدہ بنایا جائے۔
-
8:28 - 8:29ہاں میں جانتی ہوں۔
-
8:31 - 8:36’’خواتین یہ سب دعوے مالدار
اور مشہور ہونے کے لئے کرتی ہیں‘‘۔ -
8:36 - 8:38ہمارا اپنا صدر یہی کہتا ہے۔
-
8:40 - 8:42میں شرط لگا سکتی ہوں کہ ٹیلر سوئفٹ جو،
-
8:42 - 8:46دنیا کی ایک مشہور اور امیر ترین
گلوکارہ ہے، -
8:47 - 8:48اسے مزید شہرت اور پیسے کی
ضرورت نہیں -
8:48 - 8:51مگر جب وہ خود پر زیادتی کا
کیس سامنے لائی -
8:51 - 8:52صرف ایک ڈالر کے لئے۔
-
8:53 - 8:55مجھے خوشی ہے کہ اس نے ایسا کیا۔
-
8:57 - 8:59فوری خبر:
-
8:59 - 9:03خواتین کو دفاتر میں جنسی ہراساں کرنے
سے متعلق ان کہی کہانی: -
9:05 - 9:07خواتین محض ایک محفوظ، خوش گوار
-
9:08 - 9:10اور ہراساں نہ کرنے والا
ماحول چاہتی ہیں۔ -
9:10 - 9:11بس یہی ہے۔
-
9:12 - 9:17(تالیاں)
-
9:18 - 9:21تو ہم اپنی کھوئی طاقت دوبارہ
کیسے حاصل کریں گے؟ -
9:22 - 9:23میرے پاس تین حل ہیں۔
-
9:24 - 9:25نمبر ایک:
-
9:25 - 9:29ہمیں خاموش تماشائیوں اور وجہ بننے والوں
کو اتحادی بنانا ہوگا۔ -
9:30 - 9:33آج کے دور میں 98 فیصد امریکی اداروں میں
-
9:33 - 9:35جنسی ہراساں کرنے سے متعلق تربیت
کی پالیسی ہے۔ -
9:35 - 9:3870 فیصد کے پاس اس سے بچت کے
پروگرامز ہیں۔ -
9:39 - 9:41مگر اب بھی، بے انتہا
-
9:41 - 9:44خاموش تماشائی اورگواہ
سامنے نہیں آتے۔ -
9:45 - 9:462016 میں،
-
9:46 - 9:50ہارورڈ بزنس ریویو نے اسے
’’خاموش تماشائیوں کا اثر‘‘ قرار دیا۔ -
9:52 - 9:55اور اب تک ۔۔ 9 ستمبر کو یاد کریں،
-
9:55 - 9:58ہم لاکھوں بار سن چکے ہیں،
-
9:58 - 9:59’’اگر تم کچھ دیکھو،
-
9:59 - 10:01تو کچھ بولو۔‘‘
-
10:02 - 10:06ذرا سوچئے، یہ کتنا اثر انگیز ہو اگر ہم
اسے باور کرواسکیں -
10:06 - 10:09دفاتر میں جنسی بددیانتی کے خاموش
تماشائیوں کو کہ ۔۔ -
10:10 - 10:13وہ ایسے واقعات کی نشاندہی
اور ان میں مداخلت کریں: -
10:14 - 10:18ایسے مجرموں کےسامنے
آکر کھڑے ہوں: -
10:19 - 10:22متاثرین کی مدد اور ان کی
حفاظت کریں۔ -
10:22 - 10:24میری یہ صدا ان مردوں کے لئے ہے:
-
10:25 - 10:27ہمیں اس لڑائی میں آپ کی ضرورت ہے۔
-
10:28 - 10:29اور خواتین کی بھی ۔۔۔
-
10:29 - 10:32وجہ بننے والوں سے لے کر
اتحادیوں تک۔ -
10:32 - 10:34نمبر دو:
-
10:34 - 10:35قوانین میں تبدیلی لائیں۔
-
10:37 - 10:38آپ میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں
-
10:38 - 10:41کہ آپ کے پاس جبری ثالثی کی
شق موجود ہے یا نہیں -
10:41 - 10:43آپ کی ملازمت کے معاہدہ میں؟
-
10:44 - 10:45ہاتھ زیادہ تو نہیں ہیں۔
-
10:45 - 10:47اگر نہیں جانتے، تو جاننا چاہئے۔
-
10:47 - 10:48میں بتاتی ہوں کیوں۔
-
10:49 - 10:50ٹائم میگزین کے مطابق،
-
10:50 - 10:52بالکل سامنے اسکرین پر،
-
10:52 - 10:55’معاہدوں میں چَھپے ہوئےباریک الفاظ دراصل
-
10:55 - 10:59جنسی زیادتیوں کو پوشیدہ رکھنے
کی اصل وجہ ہیں۔‘ -
11:00 - 11:01سنئے یہ کیا ہے۔
-
11:01 - 11:04جبری ثالثی آپ سےساتویں ترمیم
کا حق چھین لیتی ہے -
11:04 - 11:05جس سےکھلی کچہری ممکن
ہوتی ہے۔ -
11:06 - 11:07یہ راز ہے۔
-
11:08 - 11:10آپ کو ویسی گواہیاں اور
گواہی نامے نہیں ملتے۔ -
11:10 - 11:13زیادہ تر واقعات میں ادارہ آپ کے لئے
خود ثالث متعین کرتا ہے۔ -
11:14 - 11:16اپیل کا کوئی امکان نہیں،
-
11:16 - 11:19اور محض 20 فیصد ہی ملازمین
جیت پاتے ہیں۔ -
11:20 - 11:22مگر پھر، یہ ایک راز ہے،
-
11:22 - 11:25تاکہ کوئی جان ہی نہ سکے کہ
آپ کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ -
11:26 - 11:28اسی لئے میں بہت احتیاط سے
کام کر رہی ہوں۔ -
11:28 - 11:29واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹول ہل پر
-
11:29 - 11:31قوانین کی تبدیلی کے لئے،
-
11:31 - 11:32اور یہ ہے جو میں سینیٹرز کو بتاتی ہوں:
-
11:32 - 11:34جنسی ہراساں کرنا غیر سیاسی ہے۔
-
11:34 - 11:36جب کوئی آپ کو ہراساں کرتا ہے تو
-
11:36 - 11:40وہ یہ نہیں پوچھتا کہ آپ
ڈیموکریٹ ہیں یا ریپبلکن۔ -
11:40 - 11:41وہ صرف ایسا کردیتے ہیں۔
-
11:41 - 11:44اور اسی لئے ہم سب کو اس کا
خیال کرنا چاہئے۔ -
11:44 - 11:46نمبر تین:
-
11:46 - 11:47سخت بنے رہئے۔
-
11:48 - 11:50اس کی ابتدا ہوتی ہے ہمارے
مضبوط بنے رہنے سے، -
11:50 - 11:52اور یہ خوداعتمادی ہم خود پیدا کرتے ہیں
-
11:52 - 11:54اور پھر ہم مستحکم آواز اٹھاتے ہیں،
-
11:54 - 11:56اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ
ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا۔ -
11:58 - 12:00جانتی ہوں بہت خوفناک ہے یہ سب،
-
12:00 - 12:02مگر اپنے بچوں کی خاطر کرنا ہوگا۔
-
12:02 - 12:05اسے اگلی نسلوں کے لئے روکنا ہوگا۔
-
12:07 - 12:09میں جانتی ہوں کہ میں نے یہ
اپنے بچوں کے لئے کیا تھا۔ -
12:11 - 12:13وہ میرے فیصلوں کی بنیاد تھے
-
12:13 - 12:15کہ مجھے قدم بڑھانا ہے یا نہیں۔
-
12:16 - 12:17میرے پیارے بچے،
-
12:17 - 12:19میرا 12 سالہ بیٹا، کرسچین،
-
12:19 - 12:21میری 14 سالہ بیٹی، کائیا۔
-
12:21 - 12:23اور کیا میں نے انھیں کمزور سمجھا تھا۔
-
12:24 - 12:26پچھلے سال، اسکول کا آخری دن
-
12:26 - 12:28وہ دن بنا جب میرے کیس کا فیصلہ سنایا گیا،
-
12:28 - 12:30میں پریشان تھی کہ وہ کن حالات
کا سامنا کریں گے۔ -
12:30 - 12:33میری بیٹی اسکول سے واپس
آئی اور بولی، -
12:33 - 12:36’ماں، بہت سے لوگ مجھ سے پوچھ
رہے تھے کہ گرمیوں میں آپ کے ساتھ کیا ہوا‘ -
12:36 - 12:38پھر اس نے میری آنکھوں میں دیکھا
-
12:38 - 12:39پھر بولی ’’اور ممی،
-
12:39 - 12:41مجھے بہت فخر محسوس ہوا
-
12:42 - 12:44یہ کہتے ہوئے کہ تم میری ماں ہو۔‘‘
-
12:47 - 12:48اور دو ہفتے بعد،
-
12:48 - 12:52جب بالآخر وہ ان دو بچوں کے
سامنا کرنے کے قابل ہوئی -
12:52 - 12:54جو اس کی زندگی کو اجیرن کررہے تھے،
-
12:54 - 12:56وہ گھر واپس آئی اور مجھ سے بولی،
-
12:56 - 12:59’’ممی، مجھ میں یہ کرنے کی ہمت اس لئے آئی
-
13:00 - 13:02کیوں کہ میں نے دیکھا کہ آپ نے یہی کیا۔‘‘
-
13:05 - 13:11(تالیاں)
-
13:12 - 13:16ہمت کا تحفہ دینا ایک جاری عمل ہے،
-
13:18 - 13:22اور مجھے امید ہے کہ میری زندگی
نے آپ کو متاثر کیا ہوگا، -
13:22 - 13:25کیوں کہ ابھی، یہ ابتدائی مرحلہ ہے۔
-
13:25 - 13:27ہم تاریخ کو بنتا دیکھ رہے ہیں۔
-
13:27 - 13:30بہت سی خواتین سامنے آکر کہہ رہی ہیں،
-
13:30 - 13:31’’بس اب بہت ہوگیا۔‘‘
-
13:34 - 13:38(تالیاں)
-
13:39 - 13:42اب میری آخری التجا اداروں سے ہے،
-
13:43 - 13:47ان تمام خواتین کو دوبارہ ملازمت دیں
جن کا کام کاج تباہ ہوگیا -
13:47 - 13:49کسی بے ہنگم جاہل کی وجہ سے۔
-
13:50 - 13:52کیوں کہ خواتین کے
بارے میں یہ جانتی ہوں: -
13:53 - 13:57اب ہمیں مزید دھونس، دھمکی اور کم تر
سمجھ کر کنارے سے نہیں لگایا جاسکتا: -
13:58 - 14:01ہمیں کسی بھی طاقت یا سازش کے
ذریعے خاموش نہیں کرایا جاسکتا -
14:01 - 14:03جیسا کہ ماضی میں رواج رہا ہے۔
-
14:03 - 14:04نہیں۔
-
14:05 - 14:07ہم کھڑے ہوں گے اور آواز اٹھائیں گے
-
14:08 - 14:10اور اپنی بات کو منوائیں گے۔
-
14:11 - 14:15ہم وہ عورت بنیں گے جیسا
ہمیں ہونا چاہئے تھا۔ -
14:16 - 14:18اور سب سے بڑھ کر،
-
14:18 - 14:22ہم ہمیشہ سخت رہیں گے۔
-
14:22 - 14:23شکریہ
-
14:24 - 14:29(تالیاں)
- Title:
- دفاتر میں جنسی ہراساں کرنے کے واقعات کو کیسے ختم کریں
- Speaker:
- گریچن کارلسن
- Description:
-
جب گریچن کارلسن نے اپنے دفتر میں اس پر گزرنے والے جنسی سراسیمگی کے ہولناک تجربے پر اپنی زبان کھولی، تو ہر طرف خواتین اس واقعے سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکیں، ان میں سے ہرایک کی خواہش یہی تھی کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو حاصل کرسکیں اور دنیا کو بتا سکیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ایک پرجوش اور بے باک گفتگو میں وہ نہ صرف اپنی کہانی بتا رہی ہیں، بلکہ ان تین اہم چیزوں کی نشاندہی بھی کر رہی ہیں جن کا خیال کر کے دفاتر اور کام کے مقامات کو مزید محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ ’’ہم کھڑے ہوں گے اور اپنی آوازوں کو بلند کریں گے، تاکہ انھیں پوری توجہ سے سنا جاسکے۔ ہمیں ایسی عورت بننا ہے جیسا کہ ہمیں ہونا چاہئے تھا‘‘۔
- Video Language:
- English
- Team:
closed TED
- Project:
- TEDTalks
- Duration:
- 14:44
![]() |
Syed Ali Raza approved Urdu subtitles for How we can end sexual harassment at work | |
![]() |
Syed Ali Raza edited Urdu subtitles for How we can end sexual harassment at work | |
![]() |
Syed Ali Raza edited Urdu subtitles for How we can end sexual harassment at work | |
![]() |
Syed Ali Raza edited Urdu subtitles for How we can end sexual harassment at work | |
![]() |
Syed Ali Raza edited Urdu subtitles for How we can end sexual harassment at work | |
![]() |
Syed Ali Raza edited Urdu subtitles for How we can end sexual harassment at work | |
![]() |
Farhat Zahra accepted Urdu subtitles for How we can end sexual harassment at work | |
![]() |
Farhat Zahra edited Urdu subtitles for How we can end sexual harassment at work |