-
میں بڑی ہی دماغ کو پڑھنے کے لئے ہوئی تھی
-
کیونکہ میرا ایک بھائی ہے جو
-
ذہنی مرض کا شکار ہے ' سکڈزوفرینیا
-
بطور بہن اور بعد میں بطور ایک سائنسدان
-
میں سمجھنا چاہتی تھی کہ
میں کیسے اپنے خوابوں کو
-
اپنی حقیقت سے جوڑ سکتی ہوں
-
اور میں اپنے خواب سچے بنا لیتی ہوں ؟
-
میرے بھائی کے دماغ اور
سکڈزوفرینیا کے ساتھ ایسا کیا ہے
-
کہ وہ اپنے خوابوں کو عمومی
اور مشترکہ حقیقت سے نہیں جوڑ پاتا
-
اور وہ اس کے اوہام قرار پتے ہیں
-
تو میں نے اپنی زندگی شدید ذہنی
امراض کی تحقیق کے لئے وقف کر دی
-
اور میں اپنے آبائی صوبے انڈیانا
سے بوسٹن منتقل ہو گئی
-
جہاں پرمیں ڈاکٹر فرینسین بینس
کی لیب میں کام کرتی تھی
-
جو کہ ہارورڈ یونیورسٹی
کے شعبہ نفسیات میں تھی
-
لیب میں جن جوابات کی تلاش تھی
-
حیاتیاتی سطح پر کیا فرق ہے
-
ان افراد کے دماغوں میں جن کو
عمومی طور پر نارمل تصور کیا جاتا ہے
-
ان کا مقابلہ ان افراد کے دماغوں سے
-
جو سکڈزوفرینیا ' شیزوافیکٹو یا
بائی پولر ڈس آڈر کا شکار ہوتے ہیں ؟
-
تو اصل میں ہم دماغ کے مائکروسرکٹری
نقشے کو بنانے کی کوشش کر رہے تھے
-
کون سے خلیے کس خلیے کو
پیغام رسانی کر رہے ہیں '
-
کس کیمیکل کے ساتھ '
-
اور ان کیمیکل کی کتنی
مقدار کے ساتھ ؟
-
تو میری زندگی میں کافی مقصدیت موجود تھی
-
کیوں کہ دن میں میں اس قسم
کی تحقیق کیا کرتی تھی '
-
لیکن شام اور ہفتہ وار چھٹی پر'
-
میں بطور نیشنل الائنس ان منٹل النس
(NAMI) کی ایک وکیل کے سفر کیا کرتی تھی
-
لیکن 10 دسمبر 1996 کی صبح کو
-
میں یہ جاننے کے لئے جاگی کہ مجھ کو
خود ایک ذہنی ڈس آڈر کا سامنا ہے
-
میرے دماغ کے بائیں حصے
کی ایک نس پھٹ چکی تھی
-
اور اگلے چار گھنٹے میں
-
میں نے اپنے دماغ کو مکمل
طور پر تباہ ہوتے دیکھا
-
کسی بھی معلومات کو
سمجھنے کی صلاحیت سے
-
فالج کی صبح
-
میں چلنے بولنے پڑھنے لکھنے
اور کچھ یاد کرنے سے قاصر تھی
-
میں عورت کے جسم میں
ایک نومولد بچہ ہوگئی تھی
-
اگر آپ نے کبھی انساسی دماغ دیکھا ہو تو
-
اس کے دو حصے ہیں جو
ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں
-
میں آپ کو دکھانے کے لئے
ایک انسانی دماغ لے کرآئی ہوں
-
(آہیں اور ہنسی)
-
تو یہ ایک اصل انسانی دماغ ہے
-
یہ دماغ کا اگلا حصہ ہے
-
دماغ کے پچھلے حصے کے ساتھ
لٹکتی ہوئی ریڑھ کی ہڈی
-
اور اس طرح یہ میرے سر میں رکھا ہو گا
-
اور جب آپ دماغ کو دیکھیں
-
تو آپ کو اس کے دو حصے دکھائی دیں گے
-
ایک دوسرے سے بالکل جدا
-
آپ میں سے جو لوگ کمپیوٹر سمجھتے ہیں
-
ہمارے دماغ کا دائیں حصہ
ایک پیرلل پروسسر کی طرح کام کرتا ہے
-
جبکہ ہمارے دماغ کا بائیں حصہ
سیریل پروسسر کی طرح کام کرتا ہے
-
یہ دو حصے ایک دوسرے کے ساتھ
پیغامات کی ترسیل کرتے رہتے ہیں
-
کورپس کلوسم کے زریعے
-
جو کہ کوئی 300 اگزونل فائبر
سے مل کر بنے ہیں
-
لیکن اس کے علاوہ
-
دونوں حصے بالکل الگ ہیں
-
کیونکہ وہ معلومات کو
مختلف طریقے سے سمجھتے ہیں
-
ہر حصے کی ذمہ داری بالکل
مختلف معلومات کو سمجھنا ہے
-
ان کا دھیان مختلف چیزوں پر ہوتا ہے
اور آپ اجازت دیں تو میں کہوں
-
ان کی شخصیتیں ہی
ایک دوسرے سے بلکل مختلف ہیں
-
معاف کیجے گا - شکریہ - بہت ہی مزہ آیا -
-
مددگار : جی بہت مزہ آیا -
-
( قہقہ )
-
ہمارے دماغ کا دایاں حصہ صرف
حال اور اس لمحے کے بارے میں سوچتا ہے
-
یہاں ابھی اس وقت
-
ہمارے دماغ کا دایاں حصہ
تصویروں میں سوچتا ہے
-
یہ عضلاتی طور پر سوچتا ہے
ہماری جسم کی جنبشوں سے
-
معلومات توانائی کی شکل میں بیک وقت
پورے جسم میں آتی اور بہتی رہتی ہیں
-
ہمارے تمام نظام اعصاب کے زریعے
-
اور پھر یہ پھٹ کر ایک
عظیم ایلبم کلازکی شکل لے لیتی ہے
-
جو کہ موجودہ لمحے کی
صورت میں ہم کو نظر آتا ہے
-
موجودہ لمحہ سونگھنے میں کیسا ہے
اور ذائقے میں کیسا ہے
-
محسوس کرنے میں کیسا ہے
اور سننے میں کیسا ہے
-
میں ایک توانائی ہوں جو اپنی
اطراف کی توانائی سے جڑی ہوئی ہے
-
دماغ کے دائیں حصے
کے شعور کے ذریعے
-
ہم توانائی کی ہستیاں ہیں جو ایک
دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں
-
دماغ کے دائیں حصے
کے شعور کے زریعے
-
بطور ایک انسانی خاندان کے
-
اور اس وقت ' یہاں پر ہم
اس سیارے کے بہن بھائی ہیں
-
جس کی ذمہ داری اس دنیا کو بہتر بنانا ہے
-
اور اس لمحے میں ہم مکمل
بہترین اور خوبصورت ہیں
-
ہمارے دماغ کا بایاں حصہ
ایک بلکل مختلف جگہ ہے
-
ہمارے دماغ کا بایاں حصہ خطی
علمی اور نظامی طور پر سوچتا ہے
-
ہمارے دماغ کے بائیں حصے کا دھیان
ماضی اور مستقبل کے بارے میں ہے
-
دماغ کے بائیں حصے کی بننت
اس طرح بنی ہے کہ
-
ہمارے حال کے عظیم ترین
ایلبم / کلاز کو لے کر
-
اس میں سے تفصیلات اور پھر ان تفصیلات
کی تفصیلات جمع کرنا شروع کردیتا ہے
-
اور بھی اس ساری معلومات کو
منظم اور درجہ بند کریتا ہے
-
ماضی میں ہونے والی تمام ان تمام چیزوں
سے جوڑتا ہے جو ہم نے کبھی سیکھیں تھیں
-
اور مستقبل کے امکانات یعنی ہمارے منصوبوں
پر اس کے اثرات کا تعین کر دیتا ہے
-
ہمارے دماغ کا بایاں
حصہ لسانیات یعنی زبان میں سوچتا ہے
-
یہ اس کی مسلسل گفتگو ہی ہے جو
ہم کو اور ہماری اندرونی دنیا کو
-
بیرونی دنیا سے جوڑے رکھتی ہے
-
یہ وہ چھوٹی سی آواز ہی ہے
جو مجھ سے کہتی ہے
-
سنو تم کو گھر جاتے ہوۓ کیلے
خرید کر لے جانا یاد رکھنا ہے
-
مجھے صبح ان کی ضرورت ہو گی
-
یہ میرا حساب کتاب
کرنے والا شعور ہی ہے
-
جو مجھ کو یاد دلاتا ہے کہ
مجھ کو کب کپڑے دھونے ہیں
-
مگر شاید سب سے اہم آواز وہ والی ہے
جو کہتی رہتی ہے
-
میں ! میں ہوں !
-
اور جیسے ہی میرا بایاں دماغ
مجھ سے کہتا ہے "میں ہوں "
-
میں جدا ہستی بن جاتی ہوں
-
میں ایک واحد ٹھوس فرد بن جاتی ہوں
-
اپنے اطراف میں بہنے والی توانائی سے الگ
-
اور آپ سے الگ
-
اور میرے دماغ کا یہی حصہ اس
صبح فالج کے حملے سے بے کار ہوا
-
فالج کے حملے کی صبح
-
میری آنکھ بائیں آنکھ کے پیچھے
ایک دھڑکتے درد کے ساتھ کھلی
-
یہ اس قسم کا تند درد تھا جیسا
آئس کریم کی چکھ لینے سے ہوتا ہے
-
اور اس درد نے جیسے مجھ کو جکڑ لیا
-
اور پھرچھوڑ دیا
-
اور پھرجکڑ لیا
-
اور پھر چھوڑ دیا
-
میرے لئے یہ غیرمعمولی بات تھی
مجھے کبھی بھی کسی قسم کا درد نہیں ہوا تھا
-
تو میں نے سوچا ' کوئی بات نہیں
میں اپنے روزمرہ کام شروع کرتی ہوں '
-
تو میں نے چھلانگ لگائی اور
اپنی کارڈیو گلائیڈر پر چڑھ گئی
-
جو کہ پورے جسم کی ورزش کی مشین ہے
-
اب میں اس مشین پر مزے لے رہی ہوں
-
اچانک مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے
میرا ہاتھ کسی ابتدائی انسان کا پنجہ ہے
-
جس نے ڈنڈے کو جکڑا ہوا ہے
-
اور میں سوچتی ہوں
" یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے "
-
اور پھر جھک کر
اپنے جسم کو دیکھتی ہوں
-
اور سوچتی ہوں " واہ '
میں تو بڑی عجیب و غریب چیز لگتی ہوں "
-
اور ایسا لگا کہ جیسے
میرا شعور تبدیل کردیا گیا ہو
-
یعنی حقیقت کے عمومی احساس جس میں
-
میں ایک انسان ہوتی ہوں جو کہ مشین
پر اس تجربے سے گزر رہی ہوتی ہے
-
لیکن اب میں کسی مبہم
اور مخفی جگہ پرتھی
-
جہاں میرا شعور اس تجربے کا
خود مشاہدہ کر رہا تھا
-
اور یہ سب بہت عجیب و غریب تھا
اور میرے سر کا درد بڑھتا ہی جا رہا تھا
-
تو میں مشین سے اتر گئی
-
اور میں نے کمرے میں ٹہلنا شروع کردیا
-
اور میں نے محسوس کیا کہ میرے
جسم کے اندر ہر چیز سست سی ہوگئی ہے
-
اور ہرقدم بہت سخت اور بہت سوچ سمجھ کر ہے
-
میری رفتار میں کوئی ربط نہیں ہے
-
اور خیال کی راہ میں ایک گھٹن حائل ہے
-
میرے توجہ تو صرف اندرونی نظام پر مرکوز ہے
-
میں اپنے غسل خانے میں کھڑی ہوں
-
پانی کے نیچے جانے کی تیاری کر رہی ہوں
-
اور میں واقعی اپنے جسم کے اندر
ایک مکالمہ سن رہی رہی ہوں
-
میں نے ایک آواز سنی جو کہہ رہی تھی
اے میرے پٹھے تم کو اب کھچنا ہے
-
اے میرے پٹھے
تم ڈھیلے ہو جاؤ
-
اور پھر میرا توازن برقرار نہیں رہتا
میں لڑکھڑا کر دیوار کا سہارا لیتی ہوں
-
میں جھک کر اپنے ہاتھ کو دیکھتی ہوں
-
مجھ کو احساس ہوتا ہے کہ میں اب
اپنے جسم کی حدوں کو ترتیب نہیں دے سکتی
-
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ
میں کہاں شروع ہوتی ہوں اور کہاں ختم
-
کیونکہ میرے ہاتھ کے
ایٹم اور مالیکول
-
دیوار کے ایٹم اور مالیکول سے مل گئے
-
میں اگر کسی چیز کو سمجھ پا رہی تھی
تو وہ تھی توانائی ----
-
اور میں اپنے آپ سے پوچھتی ہوں
"میرے ساتھ مسئلہ کیا ہے ؟"
-
"یہ ہو کیا رہا ہے ؟"
-
اور اسی لمحے میرے دماغ کے بائیں حصے
کی بات چیت بالکل خاموش ہوگئی
-
ایسے ہی جیسے کسی نے رموٹ کنٹرول
سے ٹی وی کی آواز بند کر دی ہو
-
ایک دم خاموشی
-
پہلے تو میں ایک دم حیران رہ گئی
اپنے دماغ کے اندر کی خاموشی سے
-
مگر پھر فورا ہی جیسے ایک اور لپیٹ میں آگئی
-
توانائی کی اس عظیم فضا کے لپیٹ میں
جو میرے اطراف میں تھی
-
اور چونکہ میں اب اپنے جسم کی
حدود کو نہیں سمجھ سکتی تھی
-
میں نے اپنے آپ کوعظیم الشان
اور قوی ہیکل محسوس کیا
-
میں نے اپنے آپ کو اس توانائی
کا ایک حصہ محسوس کیا
-
جو کہ بہت ہی خوبصورت تھا
-
پھر ایک دم اچانک میرے دماغ
کا بایاں حصہ جاگ سا گیا
-
اور اس نے مجھ سے کہا
"ارے تم تو کسی مسلئے کا شکار ہو"
-
ہم کو تو کوئی مدد لینی چاہئے
-
اور میں نے اپنے سے کہا
ارے میں تو واقعی کسی مسئلے سے دوچار ہوں
-
(قہقہہ)
-
ایسا لگا کہ ہاں میں تو
واقعی مسئلے سے دوچار ہوں
-
لیکن میں فوری طور پر
اسی شعور میں واپس آگئی
-
جس کو میں بہت پیار سے لا لا لینڈ کہتی ہوں
-
لیکن وہ تو بہت خوبصورت جگہ تھی
-
قیاس کریں وہ جگہ کتنی خوبصورت
ہوگی جہاں آپ بالکل لاتعلق ہوجائیں
-
اس چہچہاتے دماغ سے جو کہ
بیرونی دنیا سے آپ کو جوڑے رکھتا ہے
-
تو میں اس خلا میں ہوں
-
جہاں میری نوکری اور اس سے
متعلق سارا دباؤ جاتا رہا
-
میں اپنے جسم میں بہت
ہلکا محسوس کر رہی تھی
-
اور قیاس کریں آپ کے تمام تعلقات
جو بیرونی دنیا سے ہیں
-
اور ان سے منسوب کوئی بھی کشیدگی
غائب ہو چکی تھی
-
اور میں نے ایک امن و آتشی
کی فضا محسوس کی
-
اور قیاس کریں کیسا لگے گا
اگر پیچھا چھوٹ جاۓ
-
اس 37 سالہ پرانے جذباتی وزن
سے جو آپ نے اٹھا رکھا ہے
-
(قہقہہ) اوہ میں نے تو
جیسے ایک معراج پا لیا ہو
-
معراج نشاط
-
بہت خوبصورت تھا
-
پھر سے میرے دماغ
کا بایاں حصہ جاگ گیا اور اس نے کہا
-
سنو ! ادھر دھیان دو
-
ہم کو کسی مدد
کی ضرورت ہے
-
اور میں سوچ رہی ہوں کہ مجھے مدد چاہیے
میرا دھیان اس پر ہونا چاھئیے
-
تو میں غسل خانے سے نکلی اور
میں نے مشینی انداز سے کپڑے پہنے
-
اب میں اپنے اپارٹمنٹ
میں چکر لگا رہی ہوں
-
اب میں سوچ رہی ہوں مجھ کو کام پر جانا ہے
کیا میں گاڑی چلا سکتی ہوں ؟
-
اور اس لمحے
-
میرا دایاں ہاتھ مکمل طور پر
فالج زدہ ہو گیا
-
اس وقت مجھ کو اندازہ ہوا کہ اے میرے خدا
مجھ کو تو فالج کا حملہ ہورہا ہے
-
اگلی بات جو میرا ذهن مجھ سے کہتا ہے
-
واہ یہ سب کتنا زبردست ہے !
-
(قہقہہ)
-
کتنی زبردست بات ہے !
-
کتنے دماغی محققین ایسے ہوں گے
جن کو یہ موقع میسر آئے گا کہ
-
کہ وہ اپنے ہی دماغ کا مشاہدہ کر سکیں
اور وہ بھی اندر سے
-
(قہقہہ )
-
پھر ایک دم سے میرے دماغ میں آیا
" لیکن میں تو بہت مصروف عورت ہوں
-
(قہقہہ )
-
میرے پاس فالج کا وقت نہیں ہے"
تو میں نے سوچا
-
" ٹھیک ہے میں فالج کے
حملے کو تو نہیں روک سکتی
-
لیکن ایک دو ہفتے میں اپنے معمول پر
واپس آ جا ؤں گی. ٹھیک ہے مجھ کو
-
مدد کے لئے فون کرنا چاہیئے
مجھے کام پرفون کرنا ہے "
-
مجھ کو کام کا نمبر یاد نہیں آرہا تھا
-
پھر مجھ کو یاد آیا کہ میرے پاس
میرا بزنس کارڈ ہے جس پر میرا فون نمبر ہے
-
تب میں اپنے مطالعے کے کمرے میں جاتی ہوں
اور 3 انچ بزنس موٹا کارڈز کا ایک بنڈل نکالتی ہوں
-
اور سب سے اوپر والے کارڈ
کو میں دیکھ رہی ہوں
-
حالانکہ میں اپنی دماغی آنکھوں
سے صاف دیکھ سکتی ہوں
-
کہ میرا بزنس کارڈ کیسا لگتا ہے
-
مگر میں نہیں بتا سکتی کہ
یہ کارڈ میرا ہے کہ نہیں
-
کیونکہ مجھ کو سواۓ باریک
نقطوں کے کچھ نظر نہیں آرہا
-
اور الفاظ کے نقطے
کاغذ کے نقطوں سے
-
اور علامات کے نقطوں سے مدغم ہوگے ہیں
اور میں کچھ پڑھ نہیں پا رہی تھی
-
پھرمیں انتظار شروع کرتی تھی اسکا جسکو
میں وضاحت کی لہر کہتی ہوں
-
اور اس لمحے میں عمومی حقیقت
سے دوبارہ جڑ جاتی تھی
-
اور میں پڑھ لیتی تھی کہ یہ وہ
کارڈ نہیں ہے یہ وہ کارڈ نہیں ہے
-
مجھ کو کوئی 45 منٹ لگ گئے
اس گڈی کا صرف ایک انچ کم کرنے میں
-
اور اس دوران 45 منٹ کے اندر
-
فالج کے حملے کا اثر
بائیں حصے میں بڑھتا جا رہا تھا
-
مجھے نمبر نہیں سمجھ آرہے
مجھے ٹیلیفون نہیں سمجھ آرہا
-
مگر میرے پاس اور
کوئی راستہ نہیں
-
تو میں فون پیڈ لیتی ہوں
اور اس کو یہاں رکھ لیتی ہوں
-
میں نے بزنس کارڈ لیا
اور اس کو یہاں رکھ لیا
-
اور اب میں کارڈ پر
نظر آتے کیڑے مکوڑوں کو
-
فون پیڈ پر نظر آتے کیڑے
مکوڑوں کی شکل سے ملا رہی ہوں
-
لیکن پھر میں اپنے لا لا لینڈ
کی طرف بھٹک جاتی ہوں
-
جب میں واپس آتی تھی مجھ کو یاد نہیں ہوتا
تھا کہ میں نے وہ نمبر ملایا بھی ہے کہ نہیں
-
تو میں نے اپنے فالج زدہ ہاتھ کو
ایک ڈنڈے کی طرح پکڑا
-
اور ہندسوں پر رکھا جبکہ
دوسرے ہاتھ سے ان بٹنوں کو دباتی گئی
-
کہ جب میں عمومی حقیقت
کی طرف واپس آؤں
-
تو اپنے آپ کو بتا سکوں کہ
ہاں میں ہندسہ پہلے ملا چکی ہوں
-
آخرکار تمام ہندسے مل چکے
اور میں نے سنا کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی
-
میری نوکری پر ایک ساتھی
نے فون اٹھایا اور مجھ سے کہا
-
"ووو وووو ووو وو" (قہقہہ)
-
(قہقہہ)
-
اور میں اپنے آپ سوچتی ہوں
-
" اے میرے خدا!
یہ تو بالکل (گولڈن ریٹریور)
-
ایک کتے کی طرح بول رہا ہے "
(قہقہہ)
-
تب میں اس سے کہتی ہوں
اپنے دماغ میں بالکل واضح
-
"میں جل بات کررہیں ہوں
مجھ کو مدد کی ضرورت ہے"
-
اور میرے منہ سے جو آواز
نکلتی ہے کچھ ایسی ہے " ووو ووو وو "
-
اور سوچتی ہوں "میرے خدایا میں بھی
گولڈن ریٹریورکی طرح بول رہی ہوں"
-
تب مجھے وہ پتہ چلا
جو مجھے معلوم نہیں تھا
-
کہ میں اس وقت تک کوئی زبان
بول اورسمجھ نہیں سکتی جب تک کوشش نہ کروں
-
تو اس کو سمجھ آگیا کہ مجھے مدد
کی ضرورت ہے اور اس نے مدد بھجوا دی
-
اور تھوڑی دیر بعد میں
ایک ایمبولینس میں سوار
-
سارا بوسٹن پار کرکے ایک ہسپتال سے
دوسرے میساچوسٹس جنرل ہسپتال جا رہی تھی
-
میں سکڑ کر ایک چھوئے سے
پیٹ کے بچے کی طرح ہوچکی تھی
-
صرف ایک غبارے کی طرح
جس میں تھوڑی سی ہوا باقی ہو
-
اور سب غبارے سے باہر نکل چکی ہو
-
میں نے توانائی کو باہر نکلتے
اور اپنی روح کو ہتھیار ڈالتے محسوس کیا
-
اور اس لمحے مجھ کو پتہ چل گیا کہ
اب مجھ کو میری زندگی پر اختیار نہیں رہا
-
یا تو ڈاکٹر مجھ کو بچا کر
دوسری زندگی کا موقع دے دیں
-
یا میرے انتقال کا لمحہ آچکا ہے
-
اس دوپہر کو جب میں جاگی تو
-
میں یہ جان کر کافی حیران تھی
کہ میں اب تک زندہ ہوں
-
جب میں نے اپنی روح کو ہتھیار ڈالتے محسوس
کیا تب میں نے زندگی کو خدا حافظ کہہ دیا
-
اب میرا دماغ معطل ہوچکا تھا
-
دو برعکس حقائق کے درمیان
-
اس وقت میرے حسی نظام کے ذریعے
محرکات آنا شروع ہوچکے تھے
-
جو صرف خالص درد کی
صورت میں محسوس ہوئے
-
روشنی نے جنگل کی آگ کی طرح
میرے دماغ کو جلا دیا تھا
-
اور آوازیں اتنی اونچی اور شور زدہ تھیں کہ
-
پس منظر کے شور کی وجہ سے میں ایک آواز
بھی سمجھ یا پہچان نہیں پا رہی تھی
-
اور میں صرف فرار کا راستہ ڈھونڈ تی رہی
-
چونکہ میں خلا میں اپنے جسم کی
پوزیشن کی شناخت نہیں کرسکتی تھی
-
لہذا میں نے اپنے کو بہت بڑا
اور وسیع محسوس کیا
-
جیسے ایک جن اپنی بوتل سے آزاد ہوگئی ہو
-
اور میری روح پھیل کرآزاد ہو گئی
-
جیسے ایک عظیم وہیل نشاط خاموشی کے
سمندر میں تیرتی پھر رہی ہو
-
جنت عظیم / نیروانا
-
مجھ کو وہ کیفیت مل گئی جس کا وعدہ ہے
-
اور مجھ کو یاد ہے
میں سوچ رہی تھی کہ
-
ایسا تو کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکے گا کہ
میں اپنے اس عظیم الشان وجود کو پچکا کر
-
اتنے چھوٹے جسم کے اندر
سمونے کے قابل ہوسکوں
-
لیکن اس وقت مجھ کو احساس ہوا
"لیکن میں تواب بھی زندہ ہوں! "
-
میں اب بھی زندہ ہوں
اور مجھ کو نروان مل گیا ہے.
-
اور اگر مجھ کو نروان مل گیا ہے
اور میں اب بھی زندہ ہوں تب تو
-
جو بھی زندہ ہے وہ نروان حاصل کرسکتا ہے
-
اور میں نے ایسی دنیا دیکھی
-
جو کہ خوبصورت، پرامن، شفقت اور محبت
سے پیش آنے والے لوگوں سے بھری ہوئی ہے
-
جو جانتے ہیں کہ وہ کسی بھی
وقت اس کیفیت کو محسوس کرسکتے ہیں
-
اور وہ جان بوجھ کر منتخب
کرسکتے ہیں یہ حق کہ وہ کب کب
-
اپنے دماغ کے بائیں حصے کی
جانب اپنے قدم اٹھانا چاہیں گے
-
اس پرامن کیفیت کی تلاش میں
-
اور پھر مجھ کو سمجھ آیا
-
کہ یہ تجربہ کتنا زبردست تحفہ ہوسکتا ہے '
-
یہ کیسا بصیرت کا جھٹکا ہے جس نے مجھ کو
اپنی زندگی گزارنے کے ڈھنگ سیکھا دیے .
-
اور اس نے مجھ کو
صحت یاب ہونے کا حوصلہ دیا
-
فالج کے حملے کے ڈھائی ہفتوں
کے بعد سرجنوں نے میرے دماغ سے
-
ایک گولف کی گیند کے برابر
خون کا ٹکڑا نکال دیا
-
جو کہ دماغ کے لسانی صلاحیت
کے مرکز پراثرانداز ہو رہا تھا
-
یہاں میں اپنی ایک ماں کے ساتھ ہوں
-
جو کہ میری زندگی میں ایک حقیقی فرشتہ ہے
-
مجھ کو مکمل صحت یاب
ہونے میں آٹھ سال لگے
-
تو پھر ہم کون ہیں ؟
-
ہم کائناتی زندگی کی طاقتور قوت ہیں.
-
دستی مہارت اور
دو انتہائی باشعور دماغوں کے ساتھ
-
اور ہمارے پاس قوت ہے کہ ہم انتخاب کر سکیں
لمحہ بہ لمحہ
-
اس دنیا میں ہم کون ہیں
اور کیسا ہونا چاہتے ہیں
-
اسی جگہ ' اسی وقت
-
میں اپنے شعور کے دائیں حصے میں قدم
رکھ سکتی ہوں ' جہاں پر ہم ہیں تو
-
میں کائنات کی زندگی کی طاقتور قوت ہوں
-
میں زندگی کی طاقتور قوت ہوں
-
50 کھرب خوبصورت خلقی مالیکیولی موروثی
خلیوں سے بنی ہوئی ایک شکل،
-
ایک جس میں سب موجود ہے
-
یا میں انتخاب کر سکتی ہوں
اپنے شعور کے بائیں حصے میں قدم رکھنے کا
-
جہاں میں ایک انفرادی فرد بن جاتی ہوں '
ایک ٹھوس شکل میں
-
کائناتی بہاؤ سے الگ ' آپ سے الگ
-
میں ڈاکٹر جل بولٹے ٹیلر ہوں
-
دانشور ' ماہر دماغیات اور اعصابیات
(Neuroanatomist)
-
میرے اندر "ہم" موجود ہیں
-
آپ کس کا انتخاب کریں گے ؟
-
آپ کس کا انتخاب کرتے ہیں ؟
-
اور کب ؟
-
میرا خیال ہے جتنا بھی وقت ہم
-
اپنے دائیں دماغ کی گہری پرامن برقی رو
-
چلانے میں خرچ کریں گے
-
اتنا ہی ہم اس دنیا میں امن کو فروغ دیں گے
-
اور ہمارا سیارہ اتنا ہی
پرامن ہوتا چلا جاۓ گا
-
اور میرا خیال تھا کہ
اس نظریئے کو پھیلانا ضروری ہے
-
شکریہ
-
(تالیاں)