شبانہ باسیج راسخ - افغانی لڑکیوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش۔
-
0:01 - 0:02مجھے یاد ھے وہ دن جب میں گیارہ سال کی تھی
-
0:02 - 0:07اور ایک صبح گھر میں کسی خوشی کے
مناے جانے کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ -
0:07 - 0:09میرے والد اپنے سلیٹی رنگ کے چھوٹے سے ریڈیو پر۔
-
0:09 - 0:14بی بی سی کی خبریں سن رہے تھے
-
0:14 - 0:16وہ بہت مسکرا رہے تھے جو کہ بہت غیر معمولی تھا۔
-
0:16 - 0:20کیونکہ خبرین انہیں ہمیشہ پریشان کر دیا کرتی تھیں
-
0:20 - 0:25"طالبان چلے گؑے ہیں" میرے والد چلاےؑ ۔
-
0:25 - 0:28مجھے انکی بات کا مطلب معلوم نہیں تھا ۔
-
0:28 - 0:33مگر میں دیکھ سکتی تھی کہ
میرے والد بہت ہی زیادہ خوش تھے -
0:33 - 0:42"تم اب ایک با قاعدہ سکول جا سکتی ہو"، انہوں نے بتایا۔
-
0:42 - 0:47وہ صبح میں کبھی نہیں بھول سکتی-
-
0:47 - 0:52ایک باقاعدہ سکول۔
-
0:52 - 0:55آپ دیکھیے کہ میں چھ سال کی تھی جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ۔
-
0:55 - 0:59اور لڑکیوں کا سکول جانا غیر قانونی قرار دے دیا
-
0:59 - 1:02اس لیے، اگلے پانچ سالوں تک،
مجھے لڑکوں کا لباس پہن کر -
1:02 - 1:04اپنی بڑی بہن کو ایک خفیا اسکول تک لے کر جانا پڑتا،
-
1:04 - 1:10کیونکہ اس کا اکیلے گھر سے باہر رہنا منع کر دیا گیا تھا۔
-
1:10 - 1:14بس اسی ایک طریقے سے ہم تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔
-
1:14 - 1:17ہر روز، ہم مختلف راستے سے جایا کرتے
-
1:17 - 1:22تا کہ کسی کو یہ شک نا گزرے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔
-
1:22 - 1:24ہم اپنی کتابوں کو سبزی والے تھیلوں میں چھپاتے
-
1:24 - 1:30تاکہ ایسا لگے کہ ہم خریداری کے لیے باہر نکلے ہیں
-
1:30 - 1:32سکول ایک مکان میں تھا
-
1:32 - 1:38جس کے ایک کمرے میں ہم سو سے
زیادہ لوگ اپنی جگہ بنا تے تھے -
1:38 - 1:44سردیوں میں وہ جگہ بہت گرم اور آرام دہ ہوا کرتی تھی
مگر گرمیوں میں بہت زیادہ گرمی ہوتی تھی -
1:44 - 1:46ستاد، طلبہ اور ہمارے والدین؛ ہم سب کو معلوم تھا
-
1:46 - 1:51کہ ہم اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
-
1:51 - 1:53بعض اوقات، طالبان کو شک ہو جانے کی وجہ سے،
-
1:53 - 1:57سکول کو ایک ہفتے کے لیےؑ بند کرنا پڑتا۔
-
1:57 - 2:00ہم اکثر سوچا کرتے تھے کہ
وہ ہمارے بارے میں کیا جان گیےؑ ہیں۔ -
2:00 - 2:03کیا ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے؟
-
2:03 - 2:06کیا انہیں ہماری رہایؑش کا معلوم ہے؟
-
2:06 - 2:09ہم خوفزدہ تھے،
-
2:09 - 2:16لیکن پھر بھی، ہم سکول جانا چاہتے تھے۔
-
2:16 - 2:20میں خوش قسمت ہوں کہ ایسے گھر میں پیدا ہوی
-
2:20 - 2:26جہاں تعلیم کی قدر کی جاتی تھی اور
بیٹیوں کو انعام سمجھا جاتا تھا۔ -
2:26 - 2:31میرے نانا اپنے زمانے کے بہت غیر معمولی آدمی تھے۔
-
2:31 - 2:34افغانستان کے ایک دور دراز صوبے کا ایک روایت شکن آدمی
-
2:34 - 2:38مگر اپنی بیٹی، میری ماں،
-
2:38 - 2:44کو سکول بھیجنے پر اصرار کرنے کی وجہ سے
ان کے والد نے انہیں آق کر دیا۔ -
2:44 - 2:48لیکن میری پڑھی لکھی ماں استانی بن گیؑں۔
-
2:48 - 2:51وہ ھے میری ماں
-
2:51 - 2:54وہ دو سال پہلے ہی نوکری سے ریٹایؑر ہویں
-
2:54 - 2:59اور اپنے گھر میں ہی ہمارے محلے کی
بچیوں اور خواتین کے لیے سکول کھول لیا۔ -
2:59 - 3:03اور میرے والد--جو کہ یہ ہیں--
-
3:03 - 3:10اپنے خاندان کے سب سے پہلے فرد تھے جس نے تعلیم حاصل کی۔
-
3:10 - 3:12سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ان کے بچے،
-
3:12 - 3:17حتٰی کہ بیٹیاں بھی، طالبان اور ان کے دھمکیوں کے باوجود،
-
3:17 - 3:22تعلیم نا حاصل کرتے۔
-
3:22 - 3:30ان کے نزدیک، اپنے بچوں کو تعلیم نا دینا،
اس سے بڑا خطرہ تھا۔ -
3:30 - 3:33طالبان کی حکومت کے دنوں میں، مجھے یاد ہے،
-
3:33 - 3:38کچھ ایسے لمحات بھی آے میری زندگی میں
جب میں ہماری زندگیوں -
3:38 - 3:42اور ہمیشہ کے ڈر، اور غیر واضع مستقبل سے عاجز آ جاتی۔
، -
3:42 - 3:45میں ہار ماننا چاہتی
-
3:45 - 3:49لیکن میرے والد صاحب
-
3:49 - 3:51مجھ سے کہتے تھے
-
3:51 - 3:53بیٹی میری بات غور سے سنو"
-
3:53 - 3:56تم اپنی زندگی کا سارا سرمایا کھو سکتی ہو،
-
3:56 - 4:01تمہارے پیسے چوری ہو سکتے ہیں،
تمہیں جنگ کے دوران اپنا گھر چھوڑے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ -
4:01 - 4:03لیکن ایک چیز جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی
-
4:03 - 4:07وہ یہ(تعلیم) ہے،
، -
4:07 - 4:12اور اگر ہمیں اپنا خون بیچ کر بھی تمہاری فیس اد کرنی پڑی
-
4:12 - 4:15تو ھم یہ بھی کریں گے
-
4:15 - 4:20تو، اب بھی تم پڑہایؑی چھوڑنا چاہتی ہو؟"
-
4:20 - 4:23آج جب کہ میں باییس برس کی ھو چکی ھوں
-
4:23 - 4:26میں نے ایک ایسے ملک میں پرورش پایؑی جسے دہایوں پر محیط
-
4:26 - 4:29جنگ نے
تباہ کر دیا۔ -
4:29 - 4:34میری ہم عمر لڑکیوں میں سے صرف چھ فیصد نے ہایی سکول کے بعد تک تعلیم حاصل کی
-
4:34 - 4:37اور اگر میرےخاندان میں تعلیم حاصل کرنے کا عزم نا ہوتا،
-
4:37 - 4:39تو میں بھی باقی ۹۴ فیصد کا حصہ ہوتی۔
-
4:39 - 4:45اس سارے کی جگہ، آج میں آپکے سامنے مڈلبری کالج کی گریجویٹ کی حیثیت سے کھڑی ھوں
-
4:45 - 4:55(تالیاں )
-
4:55 - 4:58جب میں افغانستان واپس پہنچی تو میرے نانا،
-
4:58 - 5:02جنہیں اپنی بچیوں کو پڑہانے کی وجہ سے آق کر دیا گیا تھا،
-
5:02 - 5:06مجھے مبارک باد دینے والوں میں سرفہرست تھے۔
-
5:06 - 5:08وہ نہ صرف میری کالج کی تعلیم کے بارے میں
بہت فخر سے بتاتے ھیں -
5:08 - 5:10بلکہ
یہ بھی کہ میں وہ پہلی عورت ہوں، -
5:10 - 5:12اور یہ بھی کہ میں ایک پہلی خاتون ھوں
-
5:12 - 5:16جس نے انہیں،
کابل کی گلیوں کی سیر کروائی۔ -
5:16 - 5:21(تالیاں )
-
5:21 - 5:24میرا خاندان مجھ پر اعتماد رکھتا ہے۔
-
5:24 - 5:29میں بڑے بڑے خواب دیکھتی ہوں، مگر میرا خاندان میرے لیے اس سے بھی بڑے خواب دیکھتا ہے۔
-
5:29 - 5:33اسی لیے میں 10x10 کی عالمی سفیر ہوں،
-
5:33 - 5:36جو کہ خواتین کو تعلیم یافتہ کرنے کی عالمی مہم ہے۔
-
5:36 - 5:38اسی لیے میں نے SOLA کی بنیاد رکھی،
-
5:38 - 5:41جو کہ افغانستان میں لڑکیوں کے لیے پہلا،
-
5:41 - 5:43اور غالباََ اکیلا بورڈنگ سکول ہے۔
-
5:43 - 5:48ایک ایسے ملک میں جہاں لڑکیوں کا سکول جانا،
ابھی تک خطرے سے خالی نہیں۔ -
5:48 - 5:52دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے اپنے اسکول میں
طالب علموں کو کامیابی کے -
5:52 - 5:58جنون کے ساتھ
مواقع تلاش کرتے دیکھا ہے -
5:58 - 6:01اور میں ان کے والدین کو دیکھتی ہوں
-
6:01 - 6:05جو، میرے والدین کی طرح، ،
-
6:05 - 6:14خطرناک مخالفت کے باوجود
ان کی ہمایت کرتے ہیں۔ -
6:14 - 6:17احمد کی طرح، یہ اسکا اصلی نام نہیں ھے
-
6:17 - 6:19اور میں آپکو اسکی تصویر بھی نہیں دکھا سکتی
-
6:19 - 6:23مگر وہ میری ایک شاگرد کا والد ہے۔
-
6:23 - 6:27ایک ماہ پہلے، وہ اور انکی بیٹی
-
6:27 - 6:30سولا - (ہمارے بورڈنگ سکول) سے واپس اپنے گاوں جا رہے تھے
-
6:30 - 6:37دو منٹ کی تاخیر کے باعث،سڑک پر پھٹنے والے
-
6:37 - 6:42بم کی وجہ سے
ہلاک ہونے سے بچے۔ -
6:42 - 6:45جب وہ گھر پہنچے تو انکا فون بجا
-
6:45 - 6:48ایک آواز نے انکو دھمکی دی
-
6:48 - 6:51کہ اگر اپنی بچی کو سکول بحیجا تو
-
6:51 - 6:54وہ انکو دوبارہ قنل کرنے کی کوشش کریں گے
-
6:54 - 6:58"اگر تم یہی چاہتے ہو تو مجھے ابھی قتل کر دو" اس نے کہا۔
-
6:58 - 7:02"لیکن میں اپنی بیٹے کا مستقبل تمہارے ۔
-
7:02 - 7:06پرانے اور دقیانوسی
خیالات کی وجہ سے تباہ نہیں کرونگا" -
7:06 - 7:09افغانستا ن کے متعلق میری راے یہ ھے کہ
-
7:09 - 7:12عام طور پر اس کو مغرب میں اہمیت نہیں دی جاتی
-
7:12 - 7:16ھم لڑکیوں میں سے جو اکثر کامیاب ہوتی ھیں
-
7:16 - 7:23انکے پیچھے ایسے باپ کا ہاتھ ہے
جو اپنی بیٹیوں کی قدر کرتے ہیں -
7:23 - 7:28اور ان کی کامیابی میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔
-
7:28 - 7:31اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ
ہماری ماوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں، -
7:31 - 7:36بلکہ وہ تو اکثر اپنی بیٹیوں کے روشن مستقبل کیلیے
-
7:36 - 7:39قایؑل کرنے میں پہل کرتی ہی،
-
7:39 - 7:43لیکن افغانستان جیسے معاشرے کے تناظر میں،
-
7:43 - 7:46ہمارے پاس مردوں کی ہمایت ہونا لازمی ہے۔
-
7:46 - 7:50طالبان کی حکومت میں، سکول جانے والی لڑکیوں
-
7:50 - 7:52کی تعداد سینکڑوں میں تھی--
-
7:52 - 7:54یاد رہے کہ اس وقت یہ غیر قانونی تھا۔
-
7:54 - 7:59لیکن آج، افغانستان میں تیس لاکھ سے زیادہ لڑکیاں سکول جاتی ہیں۔
-
7:59 - 8:07(تالیاں )
-
8:07 - 8:13امریکہ سے افغانستان بہت مختلف نظر آتا ھے
-
8:13 - 8:18میں دیکھتی ہوں کہ امریکی ان تبدیلیوں کو
بہت نازک سمجھتے ہیں. -
8:18 - 8:21مجھے ڈر ہے کہ امریکی فوج کی واپسی کے بعد
-
8:21 - 8:25یہ تبدیلیاں باقی نہیں رہینگی۔
-
8:25 - 8:29لیکن جب میں افغانستان واپس جاتی ہوں،
-
8:29 - 8:34اور جب میں وہاں طالبات کو دیکھتی ھوں
-
8:34 - 8:36اور ان کے والدین کو جو انکی حمایت کرتے ہیں،
-
8:36 - 8:41ان کا حصلہ بڑہاتے ہیں،
تو مجھے ایک روشن مستقبل -
8:41 - 8:44اورپایؑدار تبدیلی نظر آتی ہے۔
-
8:44 - 8:53میرے لیے افغانستان امید اور با حد ممکنات سے
بھرا ہوا ملک ہے۔ -
8:53 - 8:56اور SOLA کی لڑکیاں مجھے
-
8:56 - 8:59ہر روز اس بات کی یاددہانی کرواتی ہیں۔
-
8:59 - 9:03میری طرح یہ لڑکیاں بھی بڑے بڑے خواب دیکھتی ھیں
-
9:03 - 9:04آپکا بہت بہت شکریہ
-
9:04 - 9:15(تالیاں )
- Title:
- شبانہ باسیج راسخ - افغانی لڑکیوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش۔
- Speaker:
- Shabana Basij-Rasikh
- Description:
-
تصور کیجیے ایک ایسا ملک جہان لڑکیوں کو چھپ کر سکول جانا پڑتا ہو اور پکڑے جانے پر سنگین نتایُج کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ صورت حال طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی تھی جس کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ ۲۲ سال کی شبانہ باسیج راسخ افغانستان میں لڑکیوں کا ایک سکول چلا رہی ہیں۔ وہ اپنی بیٹیوں پر یقین کرنے کے لئے ایک خاندان کے فیصلے کی طاقت کی تعریف کر رہی ہیں-- اور ایک بہادر باپ کی کہانی سنا رہی ہیں جو(اپنی بیٹی کی تعلیم کی خاطر) مقامی خطرات کے آگے ڈٹ کھڑا ہوا۔
- Video Language:
- English
- Team:
closed TED
- Project:
- TEDTalks
- Duration:
- 09:36
![]() |
Shadia Ramsahye approved Urdu subtitles for Dare to educate Afghan girls | |
![]() |
Shadia Ramsahye edited Urdu subtitles for Dare to educate Afghan girls | |
![]() |
Shadia Ramsahye edited Urdu subtitles for Dare to educate Afghan girls | |
![]() |
Azeema Batool accepted Urdu subtitles for Dare to educate Afghan girls | |
![]() |
Azeema Batool edited Urdu subtitles for Dare to educate Afghan girls | |
![]() |
Azeema Batool edited Urdu subtitles for Dare to educate Afghan girls | |
![]() |
nazar hussain edited Urdu subtitles for Dare to educate Afghan girls | |
![]() |
nazar hussain edited Urdu subtitles for Dare to educate Afghan girls |